آئے جو کوئی بھی روتا ہوا آئے
جائے جو کوئی تو چپ سادھ کے جائے
نت نئے خواب و خیالات کمائے
اور حقیقت میں کئی یار گنوائے
گائے دھڑکن نے محبت کے ترانے
اور فرقت نے نئے گھاؤ لگائے
ہائے دریا سی دیالُو مری اماں
اور گھنے پیڑ سے بابا مرے ہائے
من سمندر میں سفر دن کو کروں میں
رات کے رہنے کو ہے خواب سرائے
کئی ویرانوں کو خوں اپنے سے سینچا
اور امیدوں کے وہاں کھیت سجائے

0
142