پھر سے اِک بار دل کو توڑ مرے
تجھ پہ کچھ اعتبار باقی ہے
جا کے دیکھا جہاں جہاں تجھ بن
ہر جگہ انتظار باقی ہے
تُو گیا، دل مگر نہیں مانا
اب بھی تیرا خمار باقی ہے
زخم بھرنے کو وقت لگتا ہے
پر ابھی تک نِگار باقی ہے
خواب مٹتے نہیں نگاہوں سے
کچھ تو تیرا غبار باقی ہے
کیا بتائیں، کہاں تلک روئیں
آنکھ میں اشکِ پیار باقی ہے
اب بھی کرتا ہے دل وہی خواہش
اُس کا کوئی اقرار باقی ہے
کہہ گیا سب “ندیمؔ” خاموشی
پھر بھی دل میں غبار باقی ہے

0
3