ضمیرِ دہر تک جانے نبی کی ذاتِ عالی ہے
نویدِ حق انہی سے ہے خبر میں جو مثالی ہے
یہ سمجھے حجر اے ہمسر نبی کی بات سننی ہے
پتا ہے باغ کو بھی یوں جو جانے مرغ و مالی ہے
سنائیں امرِ قُل آقا حقیقت ہے جو ہستی کی
کرے بندوں کو جو مولا ملے فخرِ بلالی ہے
یقیں ہے کل جہانوں میں پیامِ جاں صداقت ہے
ملی خیرات جو اُن سے دہر میں وہ نرالی ہے
گواہی دل سے کافر دے کتاب اللہ خدائی ہے
حقیقت حق سے ثابت ہے جہاں جس کا سوالی ہے
بلایا اُن کو قادر نے میانِ مجلسِ پاکاں
بنا میلادِ احمد کی خدا نے ایسے ڈالی ہے
ہوا اعلاں نبوت کا جہانِ لا مکاں اندر
بتایا جس نے نبیوں کو وہ خود ذاتِ جلالی ہے
نبی پیارے کے رتبے کو سجائے قادرِ مطلق
یہ ذاتِ مصطفیٰ ہمدم جہانوں میں نرالی ہے
پیامِ خاص سے ہادی حریمِ ناز میں آئے
سواری تھی جو سرور کی بڑی وہ ناز والی ہے
کہو محمود آقا ہیں خلق میں قاسمِ نعمت
کہاں مولا نے دلبر کی کبھی بھی بات ٹالی ہے

13