جب بھی کوئی دوست زخموں کی دوا دینے لگا |
میرا دل موہوم شعلوں کو ہوا دینے لگا |
مے گساروں سے بچا تو زاہدوں میں پھنس گیا |
جب ذرا قربت بڑھی ہاتف صدا دینے لگا |
مجھ کو مال و زر سے تُو نے تب نوازا اے خدا |
جب مرا افلاس بھی مجھ کو مزا دینے لگا |
اتنی جِدّ و جُہد سے جس کو بھلایا تھا کہ آج |
ایک بوسیدہ سا خط اس کا پتہ دینے لگا |
میری خوشحالی کا قِصّہ جب فرشتوں نے سنا |
اک فرستادہ وہیں پر بد دُعا دینے لگا |
گرچہ ناکارہ سہی لیکن نہیں ہوں نا سمجھ |
میرا حِصّہ چھین کر کس کو ضیا دینے لگا |
کل تلک جو چھینتا تھا تیری لاشوں کے کفن |
آج اے غافل تجھے وہ کیوں ردا دینے لگا |
شورشِ احوال پر الفاظ کم پڑنے لگے |
حلقۂ عرفان و ایقاں بھی دغا دینے لگا |
تُو نے پُوری نسلِ انسانی کو شرمندہ کیا |
پستئی انسان پر کعبہ صدا دینے لگا |
ڈھل گئی شامِ مسافر ہو گیا رستہ تمام |
حشر کے میدان میں ہاتف صدا دینے لگا |
آخری منزل پہ آ کے کھُل گئیں آنکھیں امید |
اب تو لفظوں کا مسیحا بھی دغا دینے لگا |
معلومات