غم کی صورت بدل گئی ہوگی
رات شاید ہی ڈھل گئی ہوگی
درد کو حرف میں سجانے کی
شوق کی بات ٹل گئی ہوگی
وہ وہ بھی میرے جسم کی دیوار
چڑھتے چڑھتے پھسل گئی ہوگی
اس کی یاد آئی ہوگی ساری رات
نیند آنکھوں سے جل گئی ہوگی
کتنی باتیں گنوا چکا ہوں میں
خامشی بھی بہل گئی ہوگی
اب وہ تنہا ہے اپنے خوابوں میں
خود سےآگے نکل گئی ہوگی
دل میں جو اک خلش مچلتی تھی
وہ بھی شاید نکل گئی ہوگی
اب محبت کا کیا گلہ کرنا
اس کی لذت ہی کھل گئی ہوگی
یاد کے زرد زرد لمحوں میں
اس کی خوشبو بھی گل گئی ہوگی
خامشی کو زباں ملی ہوگی
دل کی بات نکل گئی ہوگی
آج پلکوں پہ آنسو آ نکلے
ایک تصویر جل گئی ہوگی
ایک خواہش تھی جو نہ کہہ پائے
زخم بن کر وہ گل گئی ہوگی
اس کہانی کو بھول جاؤ تم
وہ کہانی بدل گئی ہوگی
ایک سایہ سا رہ گیا ہوں میں
زندگی بھی نکل گئی ہوگی
اب کہاں جا کے اس کو ڈھونڈیں ہم
اس کی دنیا بدل گئی ہوگی
اک تصور سے یوں نکلتی ہوئی
وہ غزل در غزل گئی ہوگی

61