| خود اپنا ہوش کنارے پہ دھر کے دیکھا ہے |
| جنُوں کے بحر میں گہرا اُتر کے دیکھا ہے |
| ہر ایک بات پہ مرنے کا دعوٰی کرتے ہو |
| بھلا بتاؤ کبھی تم نے مر کے دیکھا ہے؟ |
| ہوا یقین انھیں حسن کی حقیقت کا |
| جو خود کو آئینے میں بن سنور کے دیکھا ہے |
| کبھی حقیقتیں بھی ریت کا محل ٹھہریں |
| کبھی خیال سبھی رنگ بھر کے دیکھا ہے |
| زمانہ روندتا ہے اپنے پاؤں کے نیچے |
| تماشا جابجا میں نے ٹھہر کے دیکھا ہے |
معلومات