خود اپنا ہوش کنارے پہ دھر کے دیکھا ہے
جنُوں کے بحر میں گہرا اُتر کے دیکھا ہے
ہر ایک بات پہ مرنے کا دعوٰی کرتے ہو
بھلا بتاؤ کبھی تم نے مر کے دیکھا ہے؟
ہوا یقین انھیں حسن کی حقیقت کا
جو خود کو آئینے میں بن سنور کے دیکھا ہے
کبھی حقیقتیں بھی ریت کا محل ٹھہریں
کبھی خیال سبھی رنگ بھر کے دیکھا ہے
زمانہ روندتا ہے اپنے پاؤں کے نیچے
تماشا جابجا میں نے ٹھہر کے دیکھا ہے

114