اک تعارف ہے لکھا اپنی میں نے تحریر کا
مجھ کو اندازہ ہے اپنے جرم کی تعذیر کا
اک محبت کی خطا مجھ سے ہوئی ہے زندگی
رخ بدل تو نے دیا ہے ہر مری تصویر کا
اپنی بربادی کا مجھکو غم نہیں دیکھو کوئی
درد ہے مجھ کو گئی ہر آہ بے تاثیر کا
کیوں نہیں پہنچی دعا میری خدا کے عرش تک
التجاؤں کو ملا کیوں رستہ اک تاخیر کا
جب قدم بڑھتا ہے میرا ان کی جانب ہی کبھی
کھنچ سا جاتا ہے کیوں حلقہ مری زنجیر کا
روز وحشت کا مری ہوتا ہے شاہد امتحاں
سامنا ہوتا ہے مجھ کو روز کیوں تقدیر ہے

0
57