زمیں کے کچھ خداؤں کی مہربانی نہیں جاتی
فلک کی ساری آفت کی نگہبانی نہیں جاتی
بگاڑا خود کو اتنا میں نے اب آئینے کے آگے
کھڑے ہو جاؤں تو صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
یہ بہرے کا علاقہ ہے یہاں پر چیخنا ہوگا
یہاں خموش لہجے کی زباں جانی نہیں جاتی
بڑا بیٹا ہوں میں گھر کا مجھے قابل بنا جلدی
مرے گھر سے خدا ساری پریشانی نہیں جاتی
فرشتہ دل ندامت پر ندامت کر رہا لیکن
جو مجھ میں نفس ہے کیوں اس کی شیطانی نہیں جاتی
کوئی آواز دے کر میرے اندر چھپ گیا شاید
مرے کانوں سے ان شورش کی حیرانی نہیں جاتی

0
7