چاہتا تھا وہ فرشتوں سا صنم
سو گنہگاروں پہ کیا کرتا کرم
بد نصیبوں کے مقدر میں کہاں
جلوہ ئے حُور و پری باغِ اِرَم
خاک کرتا عشق ہم سے وہ حسیں
آسماں تھے اس کے آگے سرِ خم
کاتبِ تقدیر نے بھی لکھ دیا
کس سیاہی سے مِرا بخت و کرم
رو رہے ہو بے بسی پر اتنا کیوں
کس کو یاں ملتا نہیں درد و الم
حوصلہ رکھ ٹھیک ہو جائے گا سب
آتے رہتے ہیں بقا میں پیچ و خم
ابھرو گے اک روز سورج کی طرح
ہوں گے پابند آپ کے لوح و قلم
سوز سے زیدؔی نہ خالی رکھنا دِل
کام آئے گا یہ تیرے ہر قدم

0
47