میں نے سمجھا تھا خواب ہو تم
با خدا اک عذاب ہو تم
کتنوں نے جاں گنوائی پھر بھی
کتنوں کا انتخاب ہو تم
وقت کے دائرے سے باہر
جاودانی شباب ہو تم
ہم کو ترسایا ہے تو نے پر
غیر کو دستیاب ہو تم
آپ میں آپ زندہ ہے گر
سمجھو پھر کامیاب ہو تم
لوگ کب شہریار کہتے
صاحبِ اجتناب ہو تم
تم سے کیا آس رکھے کوئی
خود پہ بھی اک عذاب ہو تم
کتنے رستوں کی ہے تو منزل
کتنی آنکھوں کا خواب ہو تم

90