تجھے امیری نے کیا سے کیا بنا ڈالا
خوشی کو گھر سے اپنے تو نے بھگا ڈالا
تری ہوس نے گھر کو دو زخ بنا ڈالا
ہرا بھرا تھا چمن تو نے جلا ڈالا
جوں جوں ترا دھن بڑھنے لگا توں توں صاحب
سبھی دلوں میں اندیشوں نے ڈیرا ڈالا
دو لت کے نشے میں چور جب سے ہو ئے ہو
سنو دیں کو تم نے رسم ہی بنا ڈالا
مکاں بنے دولت سے پہ گھر نہیں بنے ہے
تو نے یہ کس کے لیے اپنا خوں بہا ڈالا
ہاں آتشِ حسرت میں ہی تو جلے ہے حسن
وہ جس نے بھی اچھے وقت کو گنوا ڈالا

0
72