کیسی خواہش ترے دیدار کی تھی |
جو کشش پائی وہ رخسار کی تھی |
مسکراہٹ تو بہانہ تھی فقط |
ایک صورت یہی اظہار کی تھی |
اپنی تہذیب کو گرنے نہ دیں ہم |
کھوئی منطق وہی اقدار کی تھی |
ورثہ تھا قیمتی ضائع ہوا سب |
کچھ خطا لازمی کردار کی تھی |
رکنے کا کوئی ارادہ نہ تھا پر |
باتیں ساری چلی اصرار کی تھی |
بد مزاجی کی روش سے برا ہو |
بن گئی بھی وجہ انکار کی تھی |
لوگ ناصؔر کرے عزت اُسی کی |
جن کی عادت رہی ایثار کی تھی |
معلومات