کیسی خواہش ترے دیدار کی تھی
جو کشش پائی وہ رخسار کی تھی
مسکراہٹ تو بہانہ تھی فقط
ایک صورت یہی اظہار کی تھی
اپنی تہذیب کو گرنے نہ دیں ہم
کھوئی منطق وہی اقدار کی تھی
ورثہ تھا قیمتی ضائع ہوا سب
کچھ خطا لازمی کردار کی تھی
رکنے کا کوئی ارادہ نہ تھا پر
باتیں ساری چلی اصرار کی تھی
بد مزاجی کی روش سے برا ہو
بن گئی بھی وجہ انکار کی تھی
لوگ ناصؔر کرے عزت اُسی کی
جن کی عادت رہی ایثار کی تھی

0
42