میری زبان بند ہے ہر ایک کی نہیں |
لوگوں کے لب پر آ گئی تو پھر رکی نہیں |
اک عرصے بعد دیکھ کر ان کو مری نظر |
ٹھٹکی تھی چند ساعتیں لیکن جُھکی نہیں |
رندانِ بادہ خوار ہوں یا مفلس و غریب |
سارے ستم رسیدہ ہیں کوئی سُکھی نہیں |
ایٹم نے ہیرو شیما کو ویران کر دیا |
اس سر زمیں پہ آج بھی روئیدگی نہیں |
اُٹھتی ہیں روز لاشیں فلسطین و ہند میں |
ندیاں ہیں خون کی ستم گر دل لگی نہیں |
اس خِطّۂ زمین میں ہے ظُلم اسلئے |
شِمر و یزید کافی ہیں ابنِ علی نہیں |
تیرے بغیر آج بھی زندہ ہوں دیکھ لے |
پر اپنی بدنصیبیاں اب تک ٹلی نہیں |
امید اس جہان میں ان گِنت پھول ہیں |
پر اکثر ان میں وہ بھی ہیں جن میں کلی نہیں |
معلومات