ہائے وہ صاحبِ ایمان ہوئے جاتے ہیں
کتنے کافر ہیں مسلمان ہوئے جاتے ہیں
آسماں کیا ہے ارادہ ترے سب ماہ و نجم
ہم پہ قربان و مہربان ہوئے جاتے ہیں
دیکھ کر آج وہ خود گیسوئے پر پیچ اپنے
صورتِ آئینہ حیران ہوئے جاتے ہیں
آپ واعظ یا ملیں مغرب و مشرق جیسے
کیا ابھی حشر کے سامان ہوئے جاتے ہیں
مانا دوزخ ہے فقط ہم سے سیہ بختوں کی
شیخ جی کس لئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں
میرے آ جانے سے محفل میں، چلو خیر، حبیب
کس لئے آپ پریشان ہوئے، جا تے ہیں

0
59