سامنا کر رہا ہوں درپن کا
ساز سنتا ہوں کس کی جھانجن کا
یہ جو پردہ ہے تیرے آنگن کا
چاک ہے یہ کسی کے دامن کا
سانس کی ڈور سے جُڑا ہو جو
کیا بھروسہ ہے ایسے بندھن کا
چند گھڑیاں تھیں عیش و عشرت کی
لے گئیں چین جو ترے من کا
بھول بیٹھا تھا تُو جوانی میں
ہے بڑھاپا بھی حصّہ جیون کا
دل لگی کی نہ بات کر مجھ سے
مسئلہ اب ہے دل کی دھڑکن کا
جیسے تیسے گزار لی ہم نے
جانے کیا آگے ہو گا گلشن کا
ہم ملاقات کو چلے آئے
اک بہانہ ہے اس کے درشن کا
ہم نے طارق کہا ،جو سچ سمجھا
ہے یقیناً ، سبب وہ اَن بَن کا

0
24