دانستہ ترے شہر کی گلیوں میں گمے ہیں |
پھر ڈھونڈ کے لانے میں زمانے بھی لگے ہیں |
ہر شخص کے ہاتھوں میں یہاں سنگِ ملامت |
اوقات سے بڑھ کر یہاں احسان کیے ہیں |
ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھی بہت ہیں |
اوپر سے کچھ احباب پھنسانے میں لگے ہیں |
اک زخم یہاں روز نیا مجھ کو ملا ہے |
پر داغ کئ دل پہ پرانے بھی سجے ہیں |
جو مجھ کو بچانے کو سبھی تیر چلے تھے |
وہ آ کے سبھی میرے ہی سینے میں لگے ہیں |
اس شہر کی بنیاد بھی میں نے ہی رکھی تھی |
ہر ایک جگہ نام بھی میرے ہی مٹے ہیں |
اس شہرِ دل آزار سے جا بھی نہیں سکتا |
کچھ میرے خزانے یہاں مٹی میں دبے ہیں |
جس موڑ پہ چھوڑا تھا وہاں پر ہی رکے ہیں |
کہنے کو تو شاہدؔ یہاں دن رات چلے ہیں |
معلومات