ذہن میں کچھ ایسے خیالات کا دھواں ہے کہ کچھ عجب منظر ہے جو یقین اور گمان کے بیچ ایک ربط قائم کیے ہوۓ ہیں جانے جھکاؤ کس طرف ہو۔ جیسے یقین اور گمان سے مساوی جنگ ہو۔شاید کسی پر لطف حقیقت کا عیش اٹھاتے ہوۓ یا کسی گمان کے گمان میں تباہ حال کچھ پتا نہیں۔جیسے دہر میں ایک وسطی لے
ہو جو یقین و گمان کو دائیں بائیں ٹکاۓ ہوۓ ہے۔ اور شاید یہی ایک دشتِ دوام ہے اور پھر رہروۓ شوق اسی لے پر برہنہ پا شکستہ حال بھاگتے ہیں اور کچھ گمان کی دسترس میں آ جاتے ہیں، وجود تو شاید یہیں ہو مگر ذہن کسی اور دنیا میں آباد ہو جاتا ہے۔ اور کچھ یقین یعنی حقیقت کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے۔ ہاں مگر حقیقت صرف وجود کو شکست دے کر ناتواں بنا دیتی ہے اور سحر انگیز گمان روح کو تباہ کر دیتا ہے ۔شاید یہی زندگی ہے۔

0
42