تیرے جلووں کا سماں ہے، رقص کر
ہر نفس مے کا اثر ہے، رقص کر
تیری آنکھوں کی ضیا چھو لے اگر
چاندنی سا یہ جہاں ہے، رقص کر
ہجر کی راتوں میں آ جائے اگر
درد بھی مے کا نشاں ہے، رقص کر
تیری سانسوں کی مہک چھو لے اگر
زندگی اک کہکشاں ہے، رقص کر
نام لب پر ہو تو دل جھومے ضرور
سازِ دل بھی ہم زباں ہے، رقص کر
تیری زلفوں کی گھٹا چھا جائے جب
دشت بھی گل کی اماں ہے، رقص کر
تیری باتوں میں اگر نغمہ رہے
عمر بھی جیسے رواں ہے، رقص کر
تیری محفل ہو سجی اور میں وہاں
مست ہر سُو یہ سماں ہے، رقص کر
ذکرِ یاراں میں ہے افشیں بھی یہاں
محفلِ جاناں جواں ہے، رقص کر

1