اگر دل کے سخن کا اک خطاب ہو جاتا |
تو آئینے کا ہر چہرہ شتاب ہو جاتا |
تری خاموش نظروں میں جو خواب سوئے تھے |
وہ ایک ایک کر کے کامیاب ہو جاتا |
نظر بھی بولتی اور دل بھی سن رہا ہوتا |
تو ہر اشارہ معنی کا باب ہو جاتا |
زباں اگر ملتی، آئینہ کچھ کہتا ضرور |
ہر ایک راز تیرا بے حجاب ہو جاتا |
محبتیں بھی تصویروں میں سانس لینے لگتیں |
اگر وہ عکس تیرا زیرِ آب ہو جاتا |
حیدرؔ کی خامشی بھی کچھ سنا سکی ہوتی |
تو دردِ جاں کا لمحہ لاجواب ہو جاتا |
معلومات