مرے دل پہ مجھ کو یارب اگر اختیار ہوتا
نہ تڑپ سی دل میں ہوتی نہ میں بے قرار ہوتا
جو اتر رہا ہے میری رگِ جان میں مسلسل
اُسی کرب کا تقاضا ہے وصالِ یار ہوتا
نہ تو جی کے موت آتی نہ تو مر کے زندہ ہوتے
کہ سراپا خاک ہوتے، نہ یہ حالِ زار ہوتا
عجب اپنا حال ہوتا جو کبھی وہ مسکراتے
"کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا"
نہ شبابِ گل نظر کش نہ ہی کانٹا جاں گسل اب
کوئی پھول پھول ہوتا کوئی خار خار ہوتا
کسی آسرے پہ کیا ہم اُسی رہ گزر کو دیکھیں
جو وفا ہی اُن میں ہوتی، ہمیں انتظار ہوتا

0
2
26
جناب فیصل صاحب
زبان و بیان کی غلطیاں دور کریں اور مصرعوں میں ربط لائیں

مرے دل پہ مجھ کو یارب مجھے اختیار ہوتا
-- جب "مرے" لکھا دیا ہے تو آگے "مجھے" کا کوئی مقام نہیں ہے
مرے دل پہ مجھ کو یارب اگر اختیار ہوتا

کہ تڑپ سی دل میں ہوتی نہ میں بے قرار ہوتا
-- "کہ" کا یہاں محل نہیں ہے اسے نہ لکھیں
نہ تڑپ سی دل میں ہوتی نہ میں بے قرار ہوتا

جو اتر رہا ہے میرے رگِ جان میں مسلسل
- میرے نہیں میری - رگِ جاں مؤنث ہے
جو اتر رہا ہے میری رگِ جان میں مسلسل

کرے کیوں یہ آرزو پھر کہ وصالِ یار ہوتا
-- کون کرے ؟ اس میں فاعل کہاٰں ہے ؟
اُسی کرب کا تقاضا ہے وصالِ یار ہوتا


نہ تو جی کے موت آتی نہ تو مر کے زندہ ہوتے
کہ سراپا خاک ہوتے تو نہ زار زار ہوتا
--- کون زار زار ہوتا ہے یہ کہاں بتایا ہے آپ نے
کہ سراپا خاک ہوتے، نہ یہ حالِ زار ہوتا

عجب اپنا حال ہوتا جو وہ ہلکا ہلکا ہنستے
-- اردو میں ہلکا ہلکا کھانستے ہیں ہنستے نہیں ہیں - ہنستے دھیمے سے یا دھیرے سے ہیں
عجب اپنا حال ہوتا جو کبھی وہ مسکراتے

"کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا"

نہ شبابِ گل رہا ہے نہ ہی کانٹا جاں گسل اب
-- نہ شبابِ گل رہا ہے کا مطلب ہوا، پھول کا شباب ڈھل چکا - یہ تو ایک خبر ہے مگر آگے آپ لکھ رہے ہیں نہ ہی کانٹا جاں گسل اب - یہ ایک کیفیت ہے - اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اب آپ کے لیے نہ تو پھول کا حسن راحت بخش ہے اور نہ ہی کانٹا تکلیف دہ ہے تو اسے اس طرح لکھیں

نہ شبابِ گل نظر کش نہ ہی کانٹا جاں گسل اب
کوئی پھول پھول ہوتا کوئی خار خار ہوتا

کسی آسرے پہ خاکی اسی راستے کو دیکھیں
-- خاکی سے کیا مراد ہے - کیا یہ آپ کا تخلص ہے؟
کسی آسرے پہ کیا ہم اسی رہ گزر کو دیکھیں

انہیں پاس ہو وفا کا تو یہ انتظار ہوتا
-- اس میں دونوں ٹکڑوں کا زمانہ الگ الگ ہو جاتا ہے - پاس ہو اور ہوتا - لہذا غلط ہے

جو وفا ہی اُن میں ہوتی، ہمیں انتظار ہوتا

=============================
مرے دل پہ مجھ کو یارب اگر اختیار ہوتا
نہ تڑپ سی دل میں ہوتی نہ میں بے قرار ہوتا

جو اتر رہا ہے میری رگِ جان میں مسلسل
اُسی کرب کا تقاضا ہے وصالِ یار ہوتا

نہ تو جی کے موت آتی نہ تو مر کے زندہ ہوتے
کہ سراپا خاک ہوتے، نہ یہ حالِ زار ہوتا

عجب اپنا حال ہوتا جو کبھی وہ مسکراتے
"کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا"

نہ شبابِ گل نظر کش نہ ہی کانٹا جاں گسل اب
کوئی پھول پھول ہوتا کوئی خار خار ہوتا

کسی آسرے پہ کیا ہم اُسی رہ گزر کو دیکھیں
جو وفا ہی اُن میں ہوتی، ہمیں انتظار ہوتا


شکریہ کہ آپ نے نہ صرف غلطیوں کی نشاندھی کی بلکہ ایک ایک غلطی ٹھیک بھی کی۔

طرزِ ارشد میں ریختہ کہنا
شاہ فیصل صاحب قیامت ہے

0