درد دل میں بسا کے چلتا ہے
ہم کو اپنا بنا کے چلتا ہے
یوں چلے جیسے کارواں کوئی
اپنا سب کچھ لٹا کے چلتا ہے
چاند بادل میں اب نہیں چھپتا
رُخ سے آنچل ہٹا کے چلتا ہے
یہ حیا ہے یا پھر تغافل ہے
آنکھیں اکثر جھکا کے چلتا ہے
جھکتی جاتی ہیں نظریں سجدے میں
سر جو خوش رو اٹھا کے چلتا ہے
وقتِ رُخصت گلہ کیا اس سے
ہم کو اپنا بنا کے چلتا ہے
وہ جو سر چڑھ کے بولتا ہے نا
ایسا جادو جگا کے چلتا ہے
وہ جو خود شعر ہے نہ سمجھے شعر
شعر ہم کو سکھا کے چلتا ہے
ہوتا کیا کیا ہے دل لگانے سے
پتہ دل کو لگا کے چلتا ہے
کیا کہوں اس طلسم زادے کی
روگ دل کو لگا کے چلتا ہے

0
15