چاہتے ہیں ہم کتنے جُنوں سے |
رکھتے ہیں وہ تشریف سُکوں سے |
کر دیے پارہ سیاہی سمجھ کر |
لکھے تھے خط ہم نے خُوں سے |
پھر ہو گئے دل سوختہ تم گر |
دو دو باتیں کریں گَردُوں سے |
واسطہ اُن آنکھوں سے پڑا کیا |
رابطہ سا رہتا ہے فُسوں سے |
مِؔہر نہ صف آرا ہو سکے تم |
آگے کیا بڑھتے مجنوں سے |
--------٭٭٭-------- |
معلومات