وفا کے نام پہ کیوں میرا دل جلاتے ہو |
جو وعدہ کرتی ہو اکثر کے بھول جاتے ہو |
کسی بھی غیر کا لیتے ہو نام ہونٹوں سے |
نہ جانے کیوں میرا صبر آزماتے ہو |
محبتوں کا سلہ یہ ملا مجھکو |
جلا کے دل مرا ظالم سے مسکراتے ہو |
مری ہی چاہ پہ ہے اعتراض تمکو اور |
مجھے جلا کے ستمگر قرار پاتے ہو |
مدعوہ جھوٹ سہی مانا بہت حسین ہو تم |
نگاہے ناز سے پھر اشق کیوں بہاتے ہو |
نۓ ستم سے نۓ رنگ سے طریقے سے |
اے میرے یار بہت تم مجھے ستاتے ہو |
مثل کے شاہ پروں کو مری ہی حصرت کے |
بتاؤ تتلیاں اے دوست کیوں اڑاتے ہو |
شہاب الدین شاہ قنوجی |
معلومات