کاش امت کی جو بگڑی کو بناتے جاتے
کام دعوت کا بھی سینہ سے لگاتے جاتے
فکر کے حلقے محلوں میں سجاتے جاتے
گشت میں کوچے گلی خود کو تھکاتے جاتے
ديں کے ماحول کی برکت سے ہوا بدلاؤ ہے
"دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے"
شرک و بدعت کی جڑیں کاٹنے کی مشق ہُوتی
رہ سے ہم گندگی ہی ساری ہٹاتے جاتے
رحم کرنے سے تو رحمٰن بھی خوش ہو جائے
آسماں والے کو بھی ایسے مناتے جاتے
حال کے نقد تقاضہ کو سمجھ پاتے گر
بچھڑے بندوں پہ ترس کھا کے ملاتے جاتے
اپنے منصب کی جو پہچان ہو جاتی ناصؔر
بن کے پھر داعی فریضہ کو نبھاتے جاتے

0
51