جب سکینہ س نے کہا دل سے لگالو بابا
کب سے مقتل میں کھڑی ہوں میں بلا لو بابا
شمر نے بال پکڑ کر مِرے پھینکا ہے مجھے
پیار کرکے مجھے گودی میں اٹھالو بابا
درمیاں لاشوں کے میں ڈھونڈ رہی ہوں تم کو
کتنی لاشوں پہ گری ہوں میں سنبھالو بابا
ہوگئے نیلے طمانچوں سے یہ رخسار مِرے
شمر اب درّے لگاتا ہے بچالو بابا
ہوں میں دن بھر کی تھکی نیند ہے آنکھوں میں بھری
اپنے سینے پہ مجھے پھر سے سلالو بابا
کانوں سے چھین لئے شمرِ لعیں نے گوہر
میرے عمّو کو ترائ سے بُلا لو بابا
آج بھی کہتی ہے رو رو کے سکینہ س صائب
مجھ کو زندانِ مصیبت سے چُھڑا لو بابا۔

68