ان گنت دائروں میں بٹنے سے
فاصلے رہ گئے سمٹنے سے
روز و شب جان و دل کے گھٹنے سے
کیا ملا آنکھ میں کھٹکنے سے
کیا ملے گا تمہیں جہاں بھر کی
عزتیں چھاج میں پھٹکنے سے
اس سے بہتر ہے جان پر کھیلیں
زندگی کی بساط الٹنے سے
ذلتیں رہنمائی کرتی ہیں
کچھ تو حاصل ہوا بھٹکنے سے
باد صبح اور شام کہلائی
آپ کا زلف کے جھٹکنے سے
موت بہتر ہے بزدلوں کی سی
زندگی کی طرف پلٹنے سے
کون سنتا ہے شوراندر کا
آہ نکلی کلیجہ پھٹنے سے
مجھ میں ہیں ایسی وحشتیں واللہ
دل دھڑکتا ہے دل دھڑکنے سے
نور کا سیل آب امڈ آیا
ظلمتوں کی خلیج پٹنے سے
قسمتوں میں نہیں پلٹ جانا
ہاں نصیبہ مگر الٹنے سے
سچ تو سچ ہے حبیب، کہنے پر
کب ڈرا ہے زبان کٹنے سے

0
30