| سوچا نہ تھا کسی پہ محبت میں آئے گا |
| یہ دل کہاں کسی کی اطاعت میں آئے گا |
| عاشق کو کچھ بہکنے کا حق بھی تو چاہیے |
| یوں ہر قدم پہ کیا یہ نجابت میں آئے گا |
| کچھ تو دلوں میں شعلۂ غم چاہیے مگر |
| سب کچھ کہاں یہ ضبط کی حالت میں آئے گا |
| کس کو خبر کہ درد میں لذّت بھی ہے کوئی |
| کیا راز یہ فقط تری قربت میں آئے گا |
| دنیا کے ساتھ دل بھی بدلتا ہے رنگ خوب |
| دیکھیں کہ دل کہاں تری فرقت میں آئے گا |
| میدان میں اترنے کی ہمّت اگر نہیں |
| یہ دل بھی کھیل شوقِ ندامت میں آئے گا |
| چاہا تھا ہم نے سادگی سے وہ کرے نباہ |
| اس بات پر وہ کب کسی صورت میں آئے گا |
| رستے میں خواہشیں تو الجھ کے ہی رہ گئیں |
| کیا خواب پورا کل کی حقیقت میں آئے گا |
| آدم کو بھی تو دھوکہ ہوا اس نے جب سُنا |
| شیطان کہہ رہا تھا کہ جنّت میں آئے گا |
| جب تک نہ ہوں گی ہجر کی تنہائیاں نصیب |
| جذبہ کہاں وہ پیار کی شدّت میں آئے گا |
| طارِق ہے رِیت گر یہی کچھ پیچ و خم بھی ہو |
| سچ پھر کسی کی کیسے رفاقت میں آئے گا |
معلومات