شراب خانے کے لڑکے ہیں شیخ جی! نٹ کھٹ
یہاں سے بھاگیے تہبند تھام کر جھٹ پٹ
ہے بار بار کی تکلیف ناخنوں کے لیے
رفو گروں! نہ سلائی کرو ہمارے پھٹ
ہمارا گھر نہیں، ویرانہ ہے خدا کی قسم
نہ کوئی چاپ، نہ دستک، نہ ہی کوئی آہٹ
شبِ وصال کی سب خواہشیں تمام ہوئیں
اٹھے گا کیا تری بِن بیاہی بیوہ کا گھونگٹ
شراب خانے میں شرما نہ شیخ! پیتے ہوئے
چڑھا شراب کے بھر بھر کے جام غٹ غٹ غٹ
چڑھا کے جام تھا بدمست شیخ مسجد میں
کُھلا نہ وقتِ اذاں در، ہوئی بہت کھٹ کھٹ
عوام نے درِ مسجد کو تو اکھاڑ دیا
نجانے ہو گی اب آباد کون سی چوکھٹ
نہ پوچھ یار ہمارے کی نازکی کا حال
کمر پہ پھول کی پتّی سے پڑ گئی سلوٹ
کرے گا غیر بھلا میری ہمسری بد ذات
کہاں وہ اور کہاں تنہاؔ میں جہلمی جھمّٹ

0
57