جو بھی کر نا ہے وہ میری جان کر
ہاں مگر اچھا برا پہچان کر
کیوں ہوئے ہو، کیا نہ ہم پچھتائیں گے
دشمنِ جاں، جانِ جاناں جان کر
کچھ تو ہو رختِ سفر وقتِ سفر
دھوپ ہی کا سر پہ سائیبان کر
کیا تمیز اپنوں میں بیگانوں میں ہے
ہم سے بھی کچھ عہد کر پیمان کر
ما سوا میرے سرِ بزمِ ستم
کون اٹھ سکتا تھا سینہ تان کر

0
27