ہے کس کی آنکھ نم کیا آرزوئے غم، ستم ستم
پکارتا ملنگ ہے ستم ستم، ستم ستم
مجھے لگا میں یاد ہوں، مرے قریبِ یار کو
چلا گیا وہ توڑ کے مرا بھرم، ستم ستم
میں خود میں کائنات ہوں، جہاں کی بادشاہی رکھ
مگر کہ ہے جو مجھ میں اک مرا حرم، ستم ستم
میں اس لیئے بھی رستوں پر ٹھہر ٹھہر کے چلتا ہوں
یہاں پے چار سو ستم، قدم قدم، ستم ستم

0
72