فِتْنَۂِ خاص و عام تھا ہی نہیں |
کہیں ایسا نظام تھا ہی نہیں |
گزرے بے نام ہی جہاں گزرے |
اپنا تو کوئی نام تھا ہی نہیں |
تم نے تو عشق کام سمجھا تھا |
عشق تو کوئی کام تھا ہی نہیں |
اس نظر میں تھے ایسے ایسے سخن |
کہیں ایسا کلام تھا ہی نہیں |
تم جو آئے تو درد بہہ نکلا |
ورنہ دل کا بھی کام تھا ہی نہیں |
شہرِ جاں میں جو شور تھا ہر پل |
وہ کسی کا پیام تھا ہی نہیں |
خود کو بکھرا کے جا کے دیکھا ہے |
وہ جو تھا اب تمام تھا ہی نہیں |
جو میرے سامنے تھے سب بت تھے |
ان میں سے کوئی رام تھا ہی نہیں |
کیا عجب شخص تھا وہ دیوانہ |
اپنے گھر کوئی شام تھا ہی نہیں |
یہ کہاں آ گیا میں، میرے یہاں |
کچھ ہلال و حرام تھا ہی نہیں |
میں نے پی ہے شراب آنکھوں سے |
میرے ہاتھوں میں جام تھا ہی نہیں |
دل نے آخر مرا لہو پی لیا |
کوئی اور انتظام تھا ہی نہیں |
دل رہا اپنے ہی مزاج کا شاہ |
دل کسی کا غلام تھا ہی نہیں |
معلومات