اس ہجر میں وہ ہجر کا سا وہ مزا نہیں
ملنی جو تھی وہ عشق میں یہ وہ سزا نہیں
اب دوریاں بھی تجھ سے تو بے تاب نا کریں
اب ملنے کی بھی دیتا ہوں تجھ کو صدا نہیں
مجبوریاں ہیں کون سی ایسے بدل گیا
کرتا ہے جو تو ظلم وہ تیری ادا نہیں
احساس تیرے ہونے کا اب ہے نہیں مجھے
چہرے سے تیرے میری محبت بھی وا نہیں
آ مل کے بیٹھ جاتے ہیں اور فیصلہ کریں
تو میرا اب نہیں تو میں تیرا رہا نہیں
نظریں چرا کے سوچ ہی لیتے ہیں اب کے ہم
مجھ سے ملا نہیں تو میں تجھ سے ملا نہیں
اس دور سے گزر چکا جو جانچ میں کروں
کس کس میں ہے وفا یہاں کس میں وفا نہیں
یہ کج ادائی بھی تو وفا کا ہی روپ ہے
دونوں کی ہیں جو منزلیں وہ تو جدا نہیں
سب کا تو جرم ایک ہے پر دیکھنا ہے اب
کس کس کو ہے سزا یہاں کس کو سزا نہیں
اپنی طبیعتوں کی بھی یہ رمز ہے عجب
چلنا ادھر ہی ہے مجھے جس رخ ہوا نہیں
یہ ربط ٹوٹنا تھا سو یہ ٹوٹتا گیا
مجھ سے خفا نہیں تو میں تجھ سے خفا نہیں
میں لاکھ ڈھونڈتا ہوں دلیلوں سے راستہ
تیرے نگر کا مجھ کو رہا کچھ پتہ نہیں
سب کاوشیں گئیں ہیں ہمایوں کی رائیگاں
تیری محبتوں کا ملا کچھ صلہ نہیں
ہمایوں

15