عام کو خاص لکھ رہا ہوں میں
اپنا اتہاس لکھ رہا ہوں میں
لکھ رہا ہوں وجود کا قصہ
یعنی بکواس لکھ رہا ہوں میں
ہے سیاہی سے سارا کاغذ تر
قصۂ یاس لکھ رہا ہوں میں
زیست کے زرد کینوس پر بھی
درد کو آس لکھ رہا ہوں میں
سچ کہوں تیرے ہجر کو جاناں
ایک بن باس لکھ رہا ہوں میں
تیری یادیں تری جدائی کے غم
اپنی میراث لکھ رہا ہوں میں
تجھ کو اے جانِ من اے جانِ جہاں
ہر گھڑی پاس لکھ رہا ہوں میں
خالی خالی سے بھیگے کاغذ پر
خالی احساس لکھ رہا ہوں میں
عام کے زمرے میں ہیں باقی سب
بس تمہیں خاص لکھ رہا ہوں میں
زندگی کے اداس لمحوں کو
جینے کی باس لکھ رہا ہوں میں
ظن کے قرطاس پر ملالوں سے
جاں کا وسواس لکھ رہا ہوں میں
ہونٹوں کو لکھا رہا ہوں اک صحرا
دریا کو پیاس لکھ رہا ہوں میں

28