خواب مرے، تیری ست رنگی ردا لے اڑی۔۔
زیست کی سب رونقیں کوئی بلا لے اڑی۔۔
زور کہ کمزور کا چلتا نہیں کیا کہیں۔۔
دیپ کی رخشندگی تیز ہوا لے اڑی۔۔
جا رہا تھا شیخ کے ساتھ میں مسجد کی طرف۔۔
پر مرے ہوش و حواس تیری ادا لے اڑی۔۔
رنگ دکھانے لگا ہے یہ بڑھاپا بہت۔۔
ایک جواں چیل ایک بوڑھا جرا لے اڑی۔۔
کل شبِ غم سوچتے ہوۓ تجھے، سو گیا۔۔
خواب میں تیری خمِ زلفِ رسا لے اڑی۔۔
ٹوٹ کے بکھرا پڑا تھا میں ترے ہجر میں۔۔
خاک سمجھ کر مجھے، بادِ صبا لے اڑی۔۔
دنیا کو تھی آسماں چھونے کی اک جستجو۔۔
پھر سبھی انسانوں کو ایک وبا لے اڑی۔۔
تزکرۂ زیبؔ شہر میں ہے ترے جان جاں۔۔
یعنی مجھے ہر طرف میری کلا لے اڑی۔۔

0
168