یوں بے سبب اداسی کا سبب بھی تو تو ہے
مری جاں بے حواسی کا سبب بھی تو تو ہے
بے خود بھی تو تو نے ہی کیا ہے دلربا
بجھی سی خود شناسی کا سبب بھی تو تو ہے
تمہیں دوبارا پانے کی تمنا ہو تو کیوں
ہاں خود سے ہی نراسی کا سبب بھی تو تو ہے
رفیق میری آنکھوں کی نمی سے ہیں نا خوش
جاں! غم کی بے لباسی کا سبب بھی تو تو ہے
مرا خوں سیروں جل چکا ہے پھر غزل ہوئی
مری سخن پیاسی کا سبب بھی تو تو ہے

171