حق کو حق کہنے کی ہے باقی جسارت رہ گئی
زندگی کی زندگی میں کچھ حرارت رہ گئی
گو فرشتوں نے کیا تحریر سب نامہ مرا
خامشی سے درد سہنے کی عبارت رہ گئی
دشمنوں سے آج تک ٹوٹا نہیں ہے حوصلہ
امتحاں لینے کو باقی کیا مہارت رہ گئی
اس کی خاطر دُکھ اُٹھایا جس نے پائے گا جزا
کون کہتا ہے کوئی محنت اکارت رہ گئی
اس نے دیکھی جب مری کم مائگی اتنا ہوا
جاتے جاتے اس کی آنکھوں میں شرارت رہ گئی
وقت بدلے گا تُجھے عزّت سے دیکھے گا عدُو
اس کی نظروں میں بھی اک دو دن حقارت رہ گئی
آ رہا ہے وصل کا موسم ہوا رنگیں چمن
دیکھنے کو حسن اُس کا ہے بصارت رہ گئی
اب ملاقاتوں کے دن آتے ہیں تھوڑا صبر کر
تیرا شکوہ دور ہو گا کیوں زیارت رہ گئی
خوب دھو کر ہم پہن آئے ہیں تقوٰی کا لباس
فکر ہے کہہ دے نہ وہ دل کی طہارت رہ گئی
طارق اتنی بات کو لے کر بھلا بیٹھے ہو کیوں
پورا ہونے کو تو جنَّت کی بشارت رہ گئی

0
6