چاہا نہ تھا مگر یہ تقاضا نصاب کا |
پایا ہمیں تو شوق بھی آیا عذاب کا |
چپ تھے مگر نظر میں سوالات گھومتے |
لب پر نہ تھا کوئی بھی فسانہ کتاب کا |
کانٹے بھی ہم نے چن کے بچھائے گلاب میں |
رنگین خواب تھا ہمیں منظر گلاب کا |
لبریز جام بانٹ دیے ہم نے ہر طرف |
خود پی گئے مزہ جو تھا اس تلخ آب کا |
کیا سوچ کر کیے تھے فسانے خطاب میں |
اظہار ہو نہ پایا کوئی باب خواب کا |
منزل ملی تو راہ میں کچھ کھو بھی آئے ہم |
دل پر رہا اثر سا کسی اک عتاب کا |
حسرتؔ کے حرف حرف میں اک نور ہے چھپا |
جلتا ہے ہر چراغ اسی اک نصاب کا |
خورشید حسرت |
معلومات