چاہا نہ تھا مگر یہ تقاضا نصاب کا
پایا ہمیں تو شوق بھی آیا عذاب کا
چپ تھے مگر نظر میں سوالات گھومتے
لب پر نہ تھا کوئی بھی فسانہ کتاب کا
کانٹے بھی ہم نے چن کے بچھائے گلاب میں
رنگین خواب تھا ہمیں منظر گلاب کا
لبریز جام بانٹ دیے ہم نے ہر طرف
خود پی گئے مزہ جو تھا اس تلخ آب کا
کیا سوچ کر کیے تھے فسانے خطاب میں
اظہار ہو نہ پایا کوئی باب خواب کا
منزل ملی تو راہ میں کچھ کھو بھی آئے ہم
دل پر رہا اثر سا کسی اک عتاب کا
حسرتؔ کے حرف حرف میں اک نور ہے چھپا
جلتا ہے ہر چراغ اسی اک نصاب کا
خورشید حسرت

0
1
15
احباب سے گزارش ہے کہ میری اس غزل پہ اپنی اصلاحی تنقید ضرور کیجئے ۔
شکریہ

0