متین، نرم یہ لہجہ دکھائی دیتا ہے
وفا شعار یہ شیوہ دکھائی دیتا ہے
شبیہ کش کی ہو کاری گری عیاں اس میں
"یہ آئینے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے"
رہے فنا وہ سدا ناتواں کی خدمت میں
غریبوں کا جو مسیحا دکھائی دیتا ہے
کمند چاند ستاروں پہ ڈالی ہو جس نے
بلند اُس کا نصیبا دکھائی دیتا ہے
کبھی ہزار تھیں دشواریاں، مگر نہ ہیں اب
جو فرحتوں کا بسیرا دکھائی دیتا ہے
بے داغ جیت پہ کس کو نہ ناز ہو جائے
یہ کاوشوں کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے
ثمر چراغ جلانے کا مل گیا ناصؔر
کہ تیرگی میں اجالا دکھائی دیتا ہے

42