ہر سمت تباہی ہے جلتی ہیں چتایں اب
ہر دل یہاں روتا ہے یہ کس کو بتایں اب
اس ملک کے رہبر بھی مصروف رہے خود میں
انسان کو ڈستی ہیں زہریلی ہوایں اب
اس دور میں انساں کی لاشوں پہ سیاست ہے
منصف بھی نہیں دیتے قاتل کو سزایں اب
ہر کوچے محلے میں ماتم ہے یہ مر نے کا
یہ حال ہوا کیسے وہ آکے بتایں اب
خوشبو تو چمن کی اب تم بیچ تے رہتے ہو
یہ بارِ خزاں کیسے اس بار اٹھایں اب
مرتا ہے کہیں بیٹا میت ہے کہیں ماں کی
ہر دل یہاں روتا ہے یہ کس کو سنایں اب
قاتل یہ زمانے کا بنتا ہے مسیحا کیوں
ہر جھونٹ سے اس کے سب پردے یہ اٹھایں اب
یہ حکم بھی ان کا تو بس جھونٹی تسلی ہے
اعلان تو ہو تا ہے ملتی نہ دوایں اب
اب بیڈ نہیں خالی مرتے ہیں یہاں انساں
اسلام دعا کو سب ہاتھوں کو اٹھایں اب

0
37