مریض کے غموں کے غم گسار ہونے لگے ہیں
ترے خیال تو اب جاں نثار ہونے لگے ہیں
نگاہ بھر کے جو تکنا پسند کرتے نہیں تھے
وہ ہم سے ملنے کو بے قرار ہونے لگے ہیں
ہمارے ہجر میں اب تم کرو گے گریہ و زاری
کہ ہم تمھاری گلی سے فرار ہونے لگے ہیں
ترے فراق کی راہوں پے دوڑ دوڑ کے اب ہم
کسی حسینہ کے دل پر سوار ہونے لگے ہیں
جو کر رہے تھے بے چین تیرے گھر میں بسیرا
وہ شاد مانی میں اب مال دار ہونے لگے ہیں

0
9