ذرا سی بات پہ تو چھوڑ کر نہیں جاتے |
کبھی کبھی اُس کے پاس جانا پڑتا ہے |
یونہی میں کب مل جاتا ہے ہر کسی کو یار |
پیارے یار کو بھی تو کمانا پڑتا ہے |
کبھی کبھی تو اُٹھانا ہی پڑتے ہیں غم بھی |
کبھی کبھی تو یونہی ہار جانا پڑتا ہے |
بے وجہ تو کوئی کب دعا میں مانگتا ہے |
کہ اب دعا کے لیے مر ہی جانا پڑتا ہے |
یہ جو نشہ ہے کبھی مے سے تو نہیں ہوتا |
کسی کی آنکھوں پہ ایمان لانا پڑتا ہے |
کبھی کبھی تو لازم ہو جاتا ہے یہ ضبط |
کہ کوئی اجنبی اپنا بنانا پڑتا ہے |
کوئی بھی تو نہیں رُکتا ہمارے کہنے پہ اب |
کہ اپنے لہجے کو شیریں بنانا پڑتا ہے |
فیصل ملک |
معلومات