یوں تو مشکل تھا ترے ساتھ گزارا کرنا
پر مرے بس میں نہ تھا تجھ سے کنارا کرنا
جاں ہتھیلی پہ دھرے دوڑے چلے آئیں گے
بس ہمیں صبح وطن! ایک اشارہ کرنا
یاد اب تک مجھے آتا ہے،شب تنہائی
وہ ترا مجھ کو سوے دشت پکارا کرنا
اک نظر مجھ پہ بھی ہو ارض و سما کے مالک
تیری قدرت میں ہے پتھر کو ستارہ کرنا
چاند! کس بات کی ہے تجھ میں اکڑ بول ذرا
شاہ طیبہ! ذرا انگلی کا اشارہ کرنا
اس تعلق کو مرے پاؤں کی بیڑی نہ سمجھ
مجھ کو آتا ہے مرے دوست کنارا کرنا
میں کہ صحرا بھی ہوں دریا بھی ہوں جنگل بھی ہوں
مجھ کو جس نام سے مرضی ہے پکارا کرنا
میں مکمل تھا تو دھتكار دیا تھا تو نے
اب ادھورا ہوں،ادھورے پہ گزارا کرنا
اپنے ہاتھوں پہ لیے بیٹھے ہو آنکھیں دائمؔ
کس نے بولا تھا سرِ طُور نظارہ کرنا

0
47