برباد دل کو میرے آباد کر گیا
میں خوش ہوا تو پھر سے برباد کر گیا
میرے زیاں کی خاطر آیا تھا وہ مگر
سابق اذیتوں سے آزاد کر گیا
محفل میں بات میری مانی نہیں گئی
وہ ہی تھا بات میری جو صاد کر گیا
تا عمر ہوش ہم نے کھویا نہیں مگر
نظروں سے ہم کو اپنی وہ ماد کر گیا
ظاہر یوں کرب کرکے لوگوں کے سامنے
اغیار کے دلوں کو وہ شاد کر گیا
بھولا ہے کس طرح وہ محبت کو بے وفا
یک دم ہی میرے دل کو وہ حاد کر گیا
حسانؔ جس کو پھینکا دل سے نکال کر
ملنے کی پھر بھی مجھ سے وہ ساد کر گیا

0
40