غمِ دنیا سے گھبرا کر دلِ ناشاد روتا ہے |
کہ جیسے یادِ شیریں میں کوئی فرہاد روتا ہے |
مری پرواز سے پہلے مرے پر نوچ لیتا ہے |
مگر جب قید کرتا ہے تو خود صیّاد روتا ہے |
سبھی کے شعر پر وہ بس فقط اک واہ کرتا ہے |
جو میرے شعر ہے سنتا تو کیوں نَقّاد روتا ہے |
دیا تھا تجھکو جو یہ دل تو دل کا کیا کیا تو نے |
دلِ آباد اب ہو کر دلِ برباد روتا ہے |
گزارے جس نے دو لمحے تری بانہوں کے گھیرے میں |
تری جب قید سے آئے وہ پھر آزاد روتا ہے |
میں جب گنتا ہوں اپنی حسرتیں جو قتل کی میں نے |
تو یوں لگتا ہے اب مجھ میں کوئی جَلّاد روتا ہے |
وفا کے نام پر نکلا تھا جو کرنے جفا کاری |
کہ بازی ہار جانے پر وہی فرجاد روتا ہے |
(درویشؔ) |
معلومات