غمِ دنیا سے گھبرا کر دلِ ناشاد روتا ہے
کہ جیسے یادِ شیریں میں کوئی فرہاد روتا ہے
مری پرواز سے پہلے مرے پر نوچ لیتا ہے
مگر جب قید کرتا ہے تو خود صیّاد روتا ہے
سبھی کے شعر پر وہ بس فقط اک واہ کرتا ہے
جو میرے شعر ہے سنتا تو کیوں نَقّاد روتا ہے
دیا تھا تجھکو جو یہ دل تو دل کا کیا کیا تو نے
دلِ آباد اب ہو کر دلِ برباد روتا ہے
گزارے جس نے دو لمحے تری بانہوں کے گھیرے میں
تری جب قید سے آئے وہ پھر آزاد روتا ہے
میں جب گنتا ہوں اپنی حسرتیں جو قتل کی میں نے
تو یوں لگتا ہے اب مجھ میں کوئی جَلّاد روتا ہے
وفا کے نام پر نکلا تھا جو کرنے جفا کاری
کہ بازی ہار جانے پر وہی فرجاد روتا ہے
(درویشؔ)

0
161