جن کو تھا عشق میں یہاں آزار مر گئے |
جتنے ہمارے ساتھ تھے بیمار مر گئے |
کیوں کر ہمارے حال کی اس کو خبر ملے |
سر کو پٹک کے ہم پسِ دیوار مر گئے |
سوقِ وفا سجا ہے کوئی پوچھتا نہیں |
کیا دل کے سب یہاں پہ خریدار مر گئے |
مجنوں مرا ہے دشت میں فرہاد کوہ میں |
لطفِ حیات جن سے تھا وہ یار مر گئے |
گر زندگی یہاں پہ اسیری کا نام ہے |
وہ لوگ جی گئے جو گرفتار مر گئے |
میسر مجھے کسی کا بھی شانہ نہیں رہا |
جتنے بھی تھے سبھی مرے غم خوار مر گئے |
حسانؔ کالی زلف کو چہرے پہ دیکھ کر |
ہم ایک مرتبہ نہیں سو بار مر گئے |
معلومات