جن کو تھا عشق میں یہاں آزار مر گئے
جتنے ہمارے ساتھ تھے بیمار مر گئے
کیوں کر ہمارے حال کی اس کو خبر ملے
سر کو پٹک کے ہم پسِ دیوار مر گئے
سوقِ وفا سجا ہے کوئی پوچھتا نہیں
کیا دل کے سب یہاں پہ خریدار مر گئے
مجنوں مرا ہے دشت میں فرہاد کوہ میں
لطفِ حیات جن سے تھا وہ یار مر گئے
گر زندگی یہاں پہ اسیری کا نام ہے
وہ لوگ جی گئے جو گرفتار مر گئے
میسر مجھے کسی کا بھی شانہ نہیں رہا
جتنے بھی تھے سبھی مرے غم خوار مر گئے
حسانؔ کالی زلف کو چہرے پہ دیکھ کر
ہم ایک مرتبہ نہیں سو بار مر گئے

0
93