غزل
زندگی جو ادھار دیتا ہے
خود ہی دل کو قرار دیتا ہے
ترک کر دو اگر گِلے شکوے
زندگی وہ سنوار دیتا ہے
رات تاریک ہے بھلی لگتی
جب وہ خوابوں میں پیار دیتا ہے
چاندنی رات میں خیالوں کا
اک تماشا بہار دیتا ہے
بُجھ گئی شمع پر ہَوا کا لمس
سچ کہوں غم کو مار دیتا ہے
بے خودی میں بھی ایک لمحۂ وصل
یاد بن کر خمار دیتا ہے
بے سبب مسکراتا رہتا ہوں
کوئی یوں ہی پُکار دیتا ہے
اک مسافر ہوں منزلوں کا میں
کیوں یہ ماضی غبار دیتا ہے
دوریوں کے حصار میں طارِقؔ
کون نظریں اتار دیتا ہے

0
8