ہائے کہ سجدہ گاہوں میں، ذوق جبیں کہیں نہیں
ہائے کہ میکدے میں اب، بادۂ آتشیں نہیں
تیرے بغیر ہے کہاں، دل کا سکون دل رُبا
تیرے بغیر جانِ جاں، راحتِ جاں کہیں نہیں
ایک ہے دل اور ایک ہم، دونوں کے درد مختلف
اپنا کوئی مکاں نہیں، اِس کا کوئی مکِیں نہیں
اپنوں کو گِرتا دیکھ کر، کر نہ سکیں گے ضبطِ غم
بس اسی واسطے تو ہم، جھاڑتے آستیں نہیں
عشق کے بیج 'بو' کے پھر، خون سے سینچتے ہیں یاں
دل کے مقابلے میں یار، کوئی بھی سرزمیں نہیں
مثلِ دِوانہ عشق کی، چال میں آ گیا حیاتؔ
ہائے کہ عقل بارہا، کہتی رہی 'نہیں نہیں'

0
60