لگانا نا کبھی دل وفا کا مسئلہ ہے
محبت تھی کبھی اب انا کا مسئلہ ہے
ترا ہے ظن محبت مرا ہی مسئلہ ہے
مرا ہے ظن محبت خدا کا مسئلہ ہے
ہمارے درمیاں اب نہیں قربت رہی جو
ترا مرا نہیں یہ وبا کا مسئلہ ہے
مجھے لاحق ہے قربت کا معمولی سا اک غم
حقیقت میں مگر یہ بلا کا مسئلہ ہے
سخن ور بن چکے سوچو کچھ اب کام کی بھی
بہت شہرت ہے یہ اب غذا کا مسئلہ ہے
مجھے اب وہ بچا لے ڈبو دے اس کی مرضی
مرا یہ اب نہیں ناخدا کا مسئلہ ہے

159