سجنا سنورنا چھوڑ دیا جائے
غم کا لبادہ اوڑھ لیا جائے
وہ تو ہے ڈھلتا ہوا سورج
اس کو کیسے موڑ لیا جائے
وہ ہے بچھڑنے والا اب پھر
اپنا ہی رخ موڑ لیا جائے
پی چکے ہیں ہم اس میں پانی
اب یہ پیالہ توڑ دیا جائے
تیرا پیکر بن جائے گا
خوابوں کو گر جوڑ دیا جائے
دکھتے ہیں ہم اس میں بد رو
اس آئینے کو توڑ دیا جائے
ہر موتی میں تیری چمک ہو
آنکھوں کو جو نچوڑ لیا جائے
ہو سکتا ہے ہم ہی برے ہوں
خود پر ماہی غور کیا جائے

0
13