“لطیف لوگ لطافت کا لطف لیتے ہیں”
رہِ خدا میں ریاضت کا لطف لیتے ہیں
دکھائے حسن کا جلوہ وہ بام پر آکر
عجیب ہیں کہ قیامت کا لطف لیتے ہیں
اگرچہ زندگی سنجیدگی میں گزری ہے
کبھی تو ہم بھی شرارت کا لطف لیتے ہیں
وہ بات بات میں جب نکتہ آفرینی کریں
سخن میں ان کی مہارت کا لطف لیتے ہیں
سنیں جو شاعری اک بار داد ہم دیں گے
کتاب ہو تو عبارت کا لطف لیتے ہیں
ہے حسن گرچہ بلا خیز چھوٹے پودوں کا
جو سرو قد ہوں تو قامت کا لطف لیتے ہیں
نگاہ خیرہ کرے ہر طرف جمال اس کا
ہر ایک جلوۂ قدرت کا لطف لیتے ہیں
مگر یہ فیصلہ طارق کیا مرے رب نے
خدا کے بندے عبادت کا لطف لیتے ہیں

0
17